بوتل بند پانی میں ایک جرثومہ کیمپائلو بیکٹیریا پیدا ہوسکتا ہے جو غذائی سمیت کی ایک بڑی وجہ ہوتا ہے اس سمیت کی علامات میں معدے کا درد اور اسہال شامل ہیں اور بعض صورتوں میں یہ تکلیف معدہ و امعا کے خطرناک عوارض کی شکل اختیار کرسکتی ہے
یونیورسٹی آف ویلز (برطانیہ) کی ایک تحقیقی جماعت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بوتلوں میں بند معدنی پانی (منرل واٹر) غذائی سمیت (فوڈ پوائزنگ) کا ایک سبب ہوسکتا ہے اگرچہ معدنی پانی تیار کرنے والی کمپنیوں نے اس رائے سے اختلاف کیا ہے تاہم تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں ہونے والے غذائی سَمِّیت کے پچاس ہزار کیسوں میں سے چھ ہزار کا سبب بوتل بند پانی ہوسکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق بوتل بند پانی میں ایک جرثومہ کیمپائلو بیکٹیریا پیدا ہوسکتا ہے جو غذائی سمیت کی ایک بڑی وجہ ہوتا ہے اس سمیت کی علامات میں معدے کا درد اور اسہال شامل ہیں اور بعض صورتوں میں یہ تکلیف معدہ و امعا کے خطرناک عوارض کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔
اچھی سماعت سے ذہنی صلاحیت میں اضافہ
سماعت اور بولنے کی خرابیوں کے ماہرین نے کہا ہے کہ سماعت سے محروم بچوں کو اگر ایک بار اچھی طرح سننے کا موقع مل جائے تو ان کے دماغی خلیے خودبخود متحرک ہوجاتے ہیں اور ان کی ذہنی صلاحیتیں عام بچوں جیسی نشوونما حاصل کرلیتی ہیں۔
ٹیکنالوجی کی ترقی سے اب ایسے آلات تیار ہوچکے ہیں جو ان بچوں کو ایک کامیاب اور معمول کی زندگی گزارنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ والدین‘ معالجین اور اساتذہ کو مل کر سماعت سے محروم بچوں کو بتدریج بولنے اور سیکھنے کی ترغیب دینی چاہیے۔ ان کی بے ربط پکاروں کو غور سے سننا چاہیے اور بڑی شفقت اور صبر کے ساتھ انہیں درست بولنے کی مشق کرانی چاہیے۔ ماہرین کے مطابق بچوں میں سماعت کی خرابی دو طرح کی ہوتی ہے موصلی اور حسی اعصابی۔ موصلی خرابی میں سماعت کے معاون آلات بہت مفید ثابت ہوتے ہیں جبکہ حسی اعصابی خرابی اور کانوں کے پردوں میں ارتعاش کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے سماعت کے معاون آلات کا استعمال دشوار ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ والدین کو پہلے چھ ماہ کے دوران اپنے بچوں کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔ اگر وہ والدین کی آوازوں پر ردعمل ظاہر نہیں کرتے تو فوراً ماہرین سماعت سے رجوع کرنا چاہیے۔ ایسے بچوں کو اشاروں کی زبان سکھانے کی بجائے ترجیحاً بولنے کی ترغیب اور تربیت دی جانی چاہیے۔
صبح کی ورزش سے نیند بہتر
امریکہ میں کیے گئے ایک تحقیقی مطالعے میںیہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ماہواری بند ہوجانے کے بعد (مینوپاز: سن یاس) نیند کے آنے میں دقت محسوس ہونے لگے تو اس کا حل ورزش ہے لیکن اس تحقیق میں شریک ایک محقق کا کہنا ہے کہ نیند کے گہرے ہونے یا نہ ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ کتنی ورزش کی گئی ہے اور کس وقت کی گئی ہے۔ تحقیق کرنے والوں کا مشاہدہ یہ ہے کہ جو عورتیں ہفتے کے سات دن صبح کے وقت درمیانی شدت کی ورزش کم از کم آدھے گھنٹے تک کرتی ہیں انہیں اس سے کم ورزش کرنے والی خواتین کے مقابلے میں نیند آنے میں کم دقت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جو خواتین یہی ورزشیں شام کے وقت کرتی رہی تھیں ان کیلئے نیند آنے یا اس کے گہرے ہونے کے معاملے میں کوئی بہتری واقع نہیں ہوئی تھی۔ تحقیق کرنے والوں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ صبح کی ورزش شام کی ورزش کے مقابلے میں ان اعصاب پر بہتر انداز سے اثرانداز ہوتی ہے کہ جن سے نیند اچھی اور گہری آتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں